منزل کا تصور کر کے ہی اپنے اوپر خوف طاری کر لینا ‘ چلنے سے پہلے ہی شکستہ دل ہو کر بیٹھ جانا یا ایک دوبار کی نا کامی سے مایوس ہو کر اپنی تقدیر کی خرابی کا فیصلہ کر لینا قطعی دانش مندی اور حقیقت پسندی نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں انسان کے نا پختہ اور کمزور ہونے کی نشان دہی کرتی ہیں۔
’’کاش میں نے ہوش سے کام لیا ہوتا ‘ اگر میں نے اس وقت فلاں شخص کا مشورہ مان لیا ہوتا تو آج حالات قطعی مختلف ہوتے ‘ اوہو !اس وقت مجھ سے بڑی حماقت سر زد ہو گئی تھی ‘ پتہ نہیں میرے دماغ نے کام کیوں نہیں کیا‘ ورنہ میری حیثیت وہ نہ ہوتی جو آج ہے ‘ یہ پریشانی اسی وجہ سے ہے کہ میں نے غفلت کا مظاہرہ کیا تھا اور ایک سال اور پڑھ لیتا تو ڈگری مل جاتی ‘ پھر میں امریکہ میں ہوتا ‘ لیکن افسوس قسمت نے میرا ساتھ ہی نہیں دیا ۔ ‘‘اس طرح کے کلمات جن میں حسرت ‘ افسوس ‘ پچھتاوا ‘ پشیمانی اور دُکھ کا اظہار ہو ‘ اکثر لوگوں کی زبان سے آپ نے سنیں ہوں گے اور ممکن ہے خود آپ کی زبان پر بھی ایسے کلمات رہے ہوں یا رہتے ہوں یا ایسے جذبات اور احساسات آپ کو پریشان کرتے ہوں ۔ اگر ایسی صورت ہے تو یہ آپ کی شخصیت کے لئے قطعی کوئی اچھی چیز نہیں ہے جس قدر اور جتنی جلد ممکن ہو کوشش کریں کہ مایوسی ‘ لا چاری اور پشیمانی کی دلدل سے باہر آ جائیں ۔ یہ حسرت ‘ افسوس پشیمانی اور کڑھن صرف یہی نہیں کہ لا حاصل اور فضول ہے بلکہ یہ غیر محسوس طور پر آپ کی شخصیت کو تباہ کر رہی ہے ۔ آپ کے عزائم میں اضمحلال پیدا ہو رہا ہے ‘ حوصلوں میں مسلسل پستی آ رہی ہے اور زندگی کے محاذ پر آپ کی لڑائی کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ احساسات اتنے بے بس اور مجبور کر دیں کہ آپ شکستہ دل ہو کر بالکل ہی ہمت ہار بیٹھیں ۔ کسی بھی محاذ پر کوئی کار نامہ انجام دینے کے لائق نہ رہیں ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ خود سے یہ طے کریں کہ ایسا کوئی جملہ آپ کی زبان پر نہ آئے جس سے آپ کے کمزور حوصلوں کا اظہار ہوتا ہو ۔ یہ رویہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے ‘ آپ کی ذات پر دوسروں لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچائے گا ۔لوگ آپ سے کوئی کام کہتے ہوئے ہچکچائیں گے ‘ بے شک وہ کام آپ کے فرائض ہی میں کیوں نہ شامل ہوتا ہو۔ اس کے باوجود آپ کے ساتھی ‘ آپ کو کام کہنے کے بجائے خود یا کسی دوسرے شخص پر انحصار کریں گے ۔ یوں آپ کی حیثیت کم سے کم ہوتی جائے گی اور ایسا وقت آ سکتا ہے کہ لوگ آپ کو بے کار آدمی تصور کرنے لگیں اور آپ کی ملازمت بھی یقینا ً پھر خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔
قسمت کو آزمائیں:آخر آپ نے یہ کیسے طے کر لیا ہے کہ آپ کبھی ایک کامیاب انسان نہیں بن سکتے ۔ چلئے مان لیا کہ آپ کی ذہنی اور فکری صلاحیتیں غیر معمولی نہیں ہیں لیکن دنیا میں سب کامیاب انسان آئن اسٹائن ‘ گراہم بیل تو نہیں ہوتے ‘ پھر وہ کیوں کامیاب ہوتے ہیں ۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ قسمت کا رونا رونے سے پہلے قسمت کو آزما کر تو دیکھیں ‘ کم از کم آپ وہ تو کریں جہاں تک آپ کر سکتے ہیں ۔ منزل کا تصور کر کے ہی اپنے اوپر خوف طاری کر لینا ‘ چلنے سے پہلے ہی شکستہ دل ہو کر بیٹھ جانا یا ایک دوبار کی نا کامی سے مایوس ہو کر اپنی تقدیر کی خرابی کا فیصلہ کر لینا قطعی دانش مندی اور حقیقت پسندی نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں انسان کے نا پختہ اور کمزور ہونے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان باتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خدا کی ذات سے بد گمان ہو رہے ہیں اور یہ چیز انسان کو آہستہ آہستہ کفر کی راہ پر بھی مائل کر سکتی ہے ۔کوشش ضرور کریں:سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے ‘ دنیا میں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا ‘ اس پر ہر مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے اور خدا جس کو نا کام کرنا چاہے بھلا اسے کامیاب کون کر سکتا ہے ۔ بلا شبہ یہ ایسی حقیقتیں ہیں کہ ان پر کسی قسم کی بحث ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں قسمت کا دوسرا رُخ بھی دیکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے اس نے کوشش کی ۔ ‘‘ مطلب یہ کہ کوئی بھی چیز آپ کو کوشش اور جستجو کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ قسمت کسی شخص کے منہ میں نوالا نہیں ڈالتی ‘ جب تک کہ انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ ہر شخص کو اس کی جدو جہد کا پھل ملتا ہے ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہ دنیا جدو جہد کی جگہ ہے ۔ یہاں انسان اسی لئے آیا ہے کہ وہ اپنی سعی اور کوشش سے اپنے مستقبل کو روشن بنائے ۔
اپنا اختیار استعمال کیجئے:انسان قدرت کے سامنے بلا شبہ بے بس ہے لیکن اسے کچھ اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اپنی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے کا اختیار بھی انسان کو حاصل ہے ۔ کسی کوشش کے بغیر کوئی کامیابی مل جائے یہ نا ممکن ہے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ جدو جہد کا حق ادا کرنے کے بعد آپ کے حصے میں نا کامی آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے منافی بات ہے اوراللہ تعالیٰ سے بڑا انصاف کرنے والا بھلا کون ہو سکتا ہے ؟ لہٰذا محض خواہشوں اور آرزئوں کی دنیا میں رہنے سے کچھ نہیں ملے گا ۔ خود کو جھوٹی سچی طفل تسلیاں دینے سے قسمت نہیں بدلے گی ۔ قسمت آپ کی کوششوں اور تدبیر سے بدلے گی ۔ جو لوگ جدو جہد کا راستہ اپنانے کے بجائے محض خوش فہمیوں سے خود کو مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ کبھی اطمینان حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اپنے اہداف پر پہنچ سکتے ہیں۔ کامیابیوں کے لئے آپ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور اس راستے کا نام محنت ‘ لگن اور جدو جہد ہے ۔
اہداف طے کریں:ایسے لوگوں کی کی زندگی میں کوئی خوشی ‘ ولولہ ‘ ترتیب ‘ نظم و ضبط اور کشش نہیں ہو سکتی جو کسی اہداف اور مقصد کے بغیر زندگی گزارتے ہوں ۔ مقصدیت ہی دراصل زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے ‘ یہی وہ چیز ہے جو انسان اور ایک حیوان کے درمیان تفریق پیدا کرتاہے ‘ عزم اور جدو جہد کے بغیر آپ کچھ نہیں حاصل کر سکتے ۔ جدو جہد کے تصور ہی سے کانپنے والے کبھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ۔ خالی منصوبے بنانے سے بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ سوچ جب تک سوچ رہتی ہے ‘ وہ سوچنے والے اور کسی دوسرے کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ اس کا اظہار عملی صورت میں دیکھنے کو نہ ملے ۔ عمل ہی سے زندگی رواں دواں رہتی ہے محض خود کو دلفریب منصوبوں سےبہلانے سے آپ کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا ۔ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو مقصد کے حصول کیلئے لگن ‘ محنت اور تن دہی سے کام کرتے ہیں ۔ تن آسانی ‘ سستی ‘ لا پرواہی اور غیر مستقل مزاجی سے تو انسان زندگی کے چھوٹے موٹے ا ور عام کام انجام نہیں دے سکتا پھر کوئی بڑا کار نامہ کیا انجام دے گا ۔بد گمانیوں سے بچیں:اللہ تعالیٰ کی ذات انتہائی مہربان ہے۔ اس پر آپ کا صدق دل سے ایمان ہونا چاہیے ۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔ انسان قدرت کی شاہکار تخلیق ہے ۔ آپ کو وہی کچھ مل رہا ہے جس میں آپ کا فائدہ ہے اور آپ کو وہی کچھ نہیں مل رہا جس میں آپ کا نقصان ہو سکتا ہے ۔ آپ کی بھلائی کس میں ہے ‘ ممکن ہے کہ جو آپ سوچتے ہوں اس میں نہ ہو ‘ بلکہ یہ راز تو خدا ہی کو معلوم ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے پیغمبروں نے اللہ سے یہی دعا مانگی کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے وہی کچھ کر جس میں تیرے نزدیک ہماری بھلائی ہو ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں